ابھی حالیہ میں ایک پوسٹ یہاں اپلوڈ ہوئی جس میں کسی فرعون کی لاش محفوظ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ سوال تو کچھ اور تھا، لیکن یہاں کچھ ممبرز اسکو زبردستی مذہبی معاملات کی طرف لے گئے اور ایک ڈاکٹر مورس بوکائیل کی کچھ ریسرچ کے بارے میں بتلانے لگے کہ انہوں نے ایک تاریخی حوالے سے مشہور فرعون کی ممی پر تحقیق کی اور کچھ مذہبی دعوی کی بھی تصدیق کی۔
لیکن ڈاکٹر مورس کی تحقیق ٹھیک نہیں تھی اور انکی تحقیق میں کچھ نقائص تھے۔ تو میں نے سوچا اس پر ایک تفضیلی پوسٹ بنادو تاکہ پھر دوبارہ سے اگر کوئی اسکے متعلق سوال کرے ، تو اسکا حوالہ یہاں سے دے دیا جائے۔ پوسٹ میں صرف سائنسی حوالے سے ڈاکٹر مورس کی تحقیقی غلطیوں کے بارے میں لکھا گیا ہے، کسی مذھبی حوالے یہاں کوئی رخ نہیں کیا گیا ۔ اسکو صرف سائنسی تناظر کے حساب سے دیکھنے کی ضرورت ہے، تاریخی و مذہبی حوالے سے نہیں۔ ۔میں صرف اس تحقیق کو انکو سائنسی حساب سے بتاتا ہو لہذہ اسکو مذہبی حساب سے جوڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔
--------------------------------------------------------
ڈاکٹر مورس بوکائل Maurice Bucaile نے جس مصری ممی کا معائنہ پیرس میں کیا تھا وہ روعمسیس دوئم کی ہی تھی۔ لیکن یہ وہ فرعون نہیں تھا جسکا ذکر مذہبی حوالے سے کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر مورس کا یہ دعویٰ کہ اس فرعون کی لاش میں سمندری نمک پائے جانے کی وجہ سے یہ وہی فرعون ہے، جسکا مذہبی حوالات جات میں ذکر ہے۔ لیکن انکا یہ دعویٰ بہت ساری وجوہات کی بنا غلط ہے۔سب سے پہلے ڈاکٹر مورس بوکائل کے بارے میں ایک تعارف دیتا ہوں، پھر آپ کو انکے دعوے کے غلط کلیم کے بارے میں بھی بتاتا ہوں۔
ڈاکٹر مورس بوکائل ایک فرانسیسی میڈیکل ڈاکٹر تھے جو 1976 میں سعودی شاہی خاندان کے ذاتی معالج اور گائناکولجسٹ تھے۔ انہوں نے شاہی خاندان کی ایما پر اپنی متنازعہ کتاب میں اس فرعون کی ممی پر ریسرچ لکھی جو کسی میڈیل جرنل میں شائع نہیں ہوئی، اور نہ ہی peer review کے لیے دوسرے سائنسدانوں کے حوالے کی گئی۔ یہ انکی ذاتی تحقیق تھی۔ ڈاکٹر مورس ماہر آثار قدیمہ نہیں تھے اور نا ہی کوئی فارنسک ایکسپرٹ تھے۔ بلکہ انکو ایک ماہر مصریات Egyptologist میں بھی شمار نہیں کیا جاتا۔
1)جب اس مصری ممی کا سی ٹی اسکین کیا گیا تو اسکے زریعے یہ بات سامنے اور واضح ہوئی کہ اس فرعون کی موت کافی بڑی عمر (قریبا 90 سال) میں ہوئی تھی۔ یہ فرعون اپنی طبعی موت مرا تھا اور اسکے جسم میں موجود بہت سے انفیکشنز کی علامات ملی تھیں ۔ اسکے جسم میں معذوری کی علامات بھی تھیں اور اسکی ریڑھ کی ہڈی میں ہڈیوں کی بیماری arthritis کی علامات بھی پائی گئی جو کہ ہڈیوں میں کیلشئیم کی کمی سے ہوتی ہے۔ یہ فرعون تو اپنی موت کے وقت چل بھی نہیں سکتا تھا، بجائے اسکے وہ کسی لشکر کی قیادت کرتا۔ اور جس فرعون کے بارے میں مذہبی حوالے سے بتایا جاتا ہے، وہ کافی نوجوان تھا، جو اپنے لشکر کی قیادت بھی کررہا تھا۔ تو ڈاکٹڑ مورس کا دعویٰ یہاں غلط تھا کہ راعمیس وہی فرعون ہے جسکو تاریخی حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے۔
2)اس فرعون کے سمندر میں ڈوبنے کی کوئی شہادت اور ثبوت نہیں ملا۔ پھر ڈاکٹر مورس کا یہ نظریہ کہ "یہ فرعون سمندر میں ڈوبا جس سے اسکی موت واقع ہوئی" اس وجہ پر تھا کہ اس ممی کے جسم کی اندرونی حصے جیسے پھیپھڑوں میں سمندری نمک کی موجودگی کے آثار ملے، کچھ وجوہات کی بنیاد پر غلط تھا۔ کسی بھی ماہر مصریات سے پوچھ لیں، وہ آپکو بتائے گے کہ تمام مصری ممیوں کے جسموں میں ایسا نمک ملتا ہے۔ کیونکہ ممی بنانے کے عمل میں جسم سے تمام اعضاء (سوائے دل کے، کیونکہ مصری دل کو ہی جذبات اور احساسات کا مرکز سمجھتے تھے) کو جسم سے نکال دیا جاتا تھا. جب ممی بنانے کے لیے تمام اعضاء نکالے جاتے تھے تو لاش کے تمام اعضاء پھینک نہیں دیے جاتے تھے بلکہ انکو بھی نمک و مصالحہ جات لگا کر ، مختلف مرتبانوں میں محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ وہ اس لیے قدیم مصری چونکہ آفٹر لائف (حیات بعد الممات، مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ) پر یقین رکھتے تھے، اس لیے وہ اس پر بھی یقین رکھتے تھے کہ جب یہ ممی دوبارہ زندہ ہوگی، تو ان اعضاء کی ضرورت پڑے گی، اس لیے انکو بھی محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ تو پھیپھڑوں میں بھی نمک پائے جانے کا پتہ ایسا چلا.
پھر دماغ اور باقی جسم کی جوف cavity کو قدرتی کان کنی یا سطح زمین پر پائے جانے والے عام نمکیات کے ایک آمیزے (جو مصری سر زمین پر عام ملتا تھا) اس میں ملفوف او ر لپیٹ لیاجاتا ہے۔ اس نمک کے آمیزے کا نام " نیٹران Natron " تھا جو کہ مختلف نمکیاتی اجزاء پر مشتمل تھا جس میں سوڈئیم کلورائیڈ NaCl (عام کھانے کا نمک)، سوڈئیم کاربونیٹ Na₂CO₃، سوڈئیم بائی کاربونیٹ NaHCO₃ اور سوڈیم سلفیٹ Na₂SO₄ پایا جاتا تھا جو لاشوں کے محفوظ بنانے کےلیے ایک آئیڈیل مکسچر/مصالحہ مانا جاتا تھا۔
3) اب اس آمیزے "نیٹران"کو استعمال کرنے کی وجہ کیا تھی؟ سب سے بڑی وجہ جو قدیم مصریوں نے اپنے تجربہ سے سیکھی وہ یہ کہ "نیٹران" لاش کو خشک کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے اور مختلف سیال جو مرنے کے بعد لاش سے برآمد ہورہے ہوتے ہیں، انکو یہ اسموسس کے عمل سے اپنے اندر جذب کرکے لاش کو خشک رکھنے میں مدد رے رہا ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ مختلف چھوٹے جانداروں ، جیسے حشرات الارض (حتی کہ مختلف بیکٹریا وغیرہ، جو لاش کو ڈی کمپوز کررہے ہوتے ہیں، قدیم مصری اس سے یقینا ناواقف تھے) سے بھی لاش کو بچاتا ہے اور انکو مار ڈالتا ہے ۔یہ کیڑے لاش کو کھانے کی غرض سے جسم پر نمودار ہوجاتے تھے اور اسکو ڈی کمپوز کرنا شروع کردیتے تھے۔ اسطرح لاش کی قدرتی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو نمک لگا کر سست کردیا جاتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد، ممی بنانے والے مصری پروہت دوبارا سے جسم کی جوف cavity سے نیٹران کی پرانی مقدار نکالتے اور نئی مقدار ڈالتے، تاکہ اندرونی طور پر بھی لاش خشک رہ سکے اور تمام رطوبات خشک ہوسکے۔ ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ جس سے ڈاکٹر مورس اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ سمندری نمک فرعون کی ممی کے جسم کےاندر پایا گیا تھا۔
4) پھر جب ممی بنانے والے پروھتوں کو اس بات کا یقین ہوجاتا کہ اب ممی بالکل خشک ہوگئی ہے تو پھر وہ نعش کے جسم کے اندر مختلف مصالحہ جات بھرنا شروع کردیتے اور بیرونی طور پر اسکو لینن سے بنے کپڑوں سےسختی سے لپیٹنا شروع کردیتے۔ اسطرح جب لاش مکمل طور پر لپیٹ لی جاتی تو پھر اسکو ایک منقش تابوت میں رکھ کر اسکی آخری آرامگاہ تک پہنچا دیا جاتا۔ کیونکہ ڈاکٹر مورس ایک ماہر آثار قدیمہ نہیں تھے، آثار قدیمہ صرف انکے لیے ایک مشغلہ تھا اور وہ کوئی سیرئیس اس پر کام نہیں کرتے تھے، اس لیے وہ اس لاش میں "نمک بھرنے" کے پراسس سے واقف نہیں تھے۔ کسی اصلی سائنسدان کے برخلاف، وہ نتائج پر پہلے پہنچتے اور پھر بعد میں مختلف عوامل کا cherry-pick کرتے، جو ظاہر ہے ایک غلط سائنسی طریقہ کار ہے۔ زیل میں ایک لنک ہے جس میں یہ پراسس تفضیل سے بتایا گیا ہے
“https://www.mylearning.org/stories/a-step-by-step-guide-to-egyptian-mummification/220?
5) ابتدائی طور پر راعمسیس کو اسکے مرنے کے بعد مصری فراعین کے مدفون کرنے کی ایک جگہ "Valley of Kings" میں دفنایا گیا تھا، بمعہ اسکے ساز و سامان۔ لیکن لٹیروں کے ڈر سے پروھتوں نے کچھ عرصے کے بعد اسکو ایک اور فراعنہ کی ملکہ "اھموز انھیپی Ahmose Inhapy" کے مقبرے میں دفن کردیا، پھر 72 گھنٹے کے بعد اسکو یہاں سے بھی نکال کر ایک اور بڑے پروھت کے مقبرے پینی دم Pinedjem میں دفن کردیا گیا۔ یہ معلومات، ممی کے ساتھ کفن میں نصب قدیم مصری لکھائی ھائیروگلف میں لکھی ہوئی پائی گئی تھیں۔ پھر یہ سارا وقت وہی دفن رہا، حتی کہ سنہ 1881 میں اسکو ایک مقبرے کی جگہ DB320 دریافت کیا گیا۔ یوں ڈاکٹر مورس کا یہ دعوی بھی غلط نکلا کہ کسی دریا کنارے یا پھر سمندری پانی سے اس فرعون کی لاش برامد ہوئی۔
ممی کا برآمدگی اور مقبرے سے نکلنے کے بارے میں ان تفضیلات کو دیکھنے کے لیے ویکی پیڈیا کا یہ لنک پڑھیے
https://en.wikipedia.org/wiki/Ramesses_II